Skip to main content

اِقْتَـرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

Has come near
ٱقْتَرَبَتِ
قریب آگئی
the Hour
ٱلسَّاعَةُ
قیامت
and has split
وَٱنشَقَّ
اور شق ہوگیا
the moon
ٱلْقَمَرُ
چاند

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

English Sahih:

The Hour has come near, and the moon has split [in two].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پاس آئی قيامت اور شق ہوگیا چاند

احمد علی Ahmed Ali

قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

قیامت قریب آگئی (١) اور چاند پھٹ گیا (٢)۔

١۔١ ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔
١۔٢ یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا،چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(قیامت کی) گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

قیامت قریب آپہنچی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ۝) 16 ۔ النحل ;1) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت (اقترب للناس حسابھم) الخ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آپہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہوچکا تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابوہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہوسکتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک ناموں میں سے ایک نام (حاشر) آیا ہے اور (حاشر) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہوچکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھالیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہوگی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی (مسلم) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہوگیا۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہوگا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہوگی ؟ جس میں آگے نکلنا ہوگا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم، دھواں، لزام، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہوگیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کردیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کرسکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چناچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابوبکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لاسکتا جیسے فرمایا آیت ( قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ\014\09 ) 6 ۔ الانعام ;149) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت (وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ\010\01) 10 ۔ یونس ;101) بےایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا۔